165

بیٹیاں شادی کے بعد ، کس کس کا نقصان کرتی ہیں؟ – طیب شہزاد

*جو بیٹیاں شادی کے بعد بھی ماؤں کی دہلیز نہیں چھوڑتی .*_
_•?? وہ کس کس کا نقصان کرتی ہیں؟_*
_•?? ہمارے معاشرے میں جب تک بیٹیاں بیاہی نہ جائیں تب تک ماں باپ کے سینے پر بوجھ رہتی ہیں_*
_اور وہی بیٹیاں شادی ہوجانے کے بعد اماں ابا خصوصا اماں کی منظورِ نظر بن جاتی ہیں۔_
_مائیں لاڈ کے مارے خود شادی شدہ بیٹیوں کو گھر بلا کر یا فون کر کر کے اپنے مسئلوں میں اتنا الجھا دیتی ہیں ??_
 _کہ نہ بیٹیوں کا گھر بس پاتا ہے اور نہ ہی ماں کے گھر میں بیاہ کر آنیوالی اس کی اپنی بہو اپنا گھر بسا لیتے تھے_
_نیچے ہم بیان کریں گے وہ وجوہات جن کی وجہ سے اچھے بھلے بسے بسائے گھر ٹوٹ جاتے ہیں_
*_بھابھی سے مقابلہ_*
_شادی شدہ بیٹیاں بار بار گھر آکر اپنی زندگی کا موازنہ اپنے بھائی بھابھی سے کرتی ہیں مثال کے طور پر اگر بھائی بھابھی کے مقابلے میں ان کی مالی حالت اچھی ہے تو وہ اس کا بلند آواز میں اظہار کریں گی جیسے کہ ارے ہم تو کل فلاں ہوٹل کھانا کھانے گئے تھے، بھئی ہم تو چھٹیاں منانے فلاں مقام پر جائیں گے ۔_
_اس طرح کی باتوں کا مقصد اپنی امارت جتانا اور اگلے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھاوجوں کے دل میں نفرت ، حسد اور رقابت کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی بیٹیوں کے مالی حالات بھابھیوں کے مقابلے میں خراب ہوں تو پھر وہ بھابھی کے پاس موجود ہر چیز سے حسد کرتی ہیں ۔_
_ماں اور بھائی سے اسی چیز کی ضد کرتی ہیں جو ان کی بھابھی کے پاس موجود ہو۔_
 _نہیں تو اسی چیز کا مطالبہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہیں جو اگر ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو لڑائی جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔_
_*نجی معاملات میں مداخلت*_
_*کون کہاں کھانا کھانے گیا؟*_
_*کب واپس آیا؟*_
 *_امی کھانا آپ نے کیوں بنایا ؟_*
_*بھابھی اتنی دیر تک کیوں سوتی ہیں ؟*_
*_بھائی نے بھابھی کو سر پر چڑھایا ہوا ہے ۔_*
_یہ وہ سوالات اور اعتراضات ہیں جو شادی شدہ بیٹیاں اپنے میکے آکر اپنی ماں اور گھر والوں کے گوش گزار کرتی ہیں اور ظاہر ہے اپنے نجی معاملات میں مداخلت سگے بہن بھائیوں کو برداشت ہو بھی جائے تو بھابھی کو کیونکر ہوگی۔_
 _ساس اور نندوں کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ بہو ہو یا بھابھی ایک آزاد انسان ہے جس کے اپنے خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقے ہوتے ہیں ان پر بات کرنے ، روکنے ٹوکنے یا بلاوجہ ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ کہیں نند بھاوج کے آپس میں اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں تو کہیں نند ، بھائی اور بھابھی کے درمیان ناچاقی کی وجہ بن جاتی ہے ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں نندوں کے کان بھرنے سے بھابھیوں کا بسا بسایا گھر اجڑ گیا اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔_
*_اپنے گھر، شوہر اور سسرال سے لاتعلق ہوجانا_*
_اس تمام صورتحال میں جب لڑکیاں اپنے میکے سے لو لگالیتی ہیں تو ان کی توجہ ان کے اپنے گھر یا سسرال سے پوری طرح ہٹ جاتی ہے۔ شوہر دفتر کب گیا، اس نے ناشتہ کیا یا نہیں ،رات میں آکر کیا کھائے گا، سسرال میں ان کی اپنی زمے داریاں کیا ہیں ، توجہ ان باتوں سے ہٹ کر صرف میکے پر ہی مرکوز رہتی ہے جن کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے سسرال میں اپنا مقام کھو دیتی ہیں اور شوہر کے دل سے بھی اتر جاتی ہیں۔_
*_قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا_*
_شادی شدہ بیٹی یا نند کبھی کبھار میکے جائے تو ماں کے ساتھ ساتھ بھابھی بھی خوب آؤ بھگت کرتی ہیں۔_
_طرح طرح کے کھانے اور پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے ہیں_
 _دل میں نند کے لئے کیسے بھی جذبات ہوں لیکن یہ سوچ کر کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے آئی ہے منہ پر میٹھی مسکان سجائے بھابھی نند سے خوب نرمی اور اخلاق سے پیش آتی ہیں جس سے بیٹی کو عزت اور مان کا احساس ہوتا ہے جبکہ روز روز کے جانے سے یہ قدر مانند پڑجاتی ہے اور اکثر گھر کا دال دلیہ بھی خود جا کر باورچی خانے سے نکالنا پڑتا ہے اور اس دوران اگر شوہر بھی ساتھ ہو تو رہی سہی عزت بھی جاتی رہتی ہے۔_
*_بچوں کی بربادی_*
_میکے میں ہمیشہ آباد رہنے کی چاہ کرنے والی لڑکیوں کے بےحسانہ رویے کا اصل بھگتنا ان کے اپنے بچے بھگتتے ہیں ۔_
_بچے جو ہر وقت ماں باپ کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں وہ بھی ماں کی لاپروائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ یا تو خراب صحت یا خراب تعلیمی کاردرگی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر ماں کی دیکھا دیکھی وہ بھی دنگے فساد اور بد زبانی والی روش اپنا لیتے ہیں۔_
*_?? اس مسئلے کی اصل ذمہ دار??_*
_لڑکیوں کی اپنی مائیں ہوتی ہیں جو بیٹیوں کو بار بار فون کر کے یا گھر بلا کے ان کی توجہ ان کے گھر سے بھٹکا تی ہیں ۔ ماؤں کو کوشش کرنی چاہیے کہ شادی شدہ بیٹیوں کو ان کے اپنے گھر ، شوہر اور بچوں پر توجہ دینے کی نصیحت کریں ، نہ کہ ان کو اپنے گھر کے مسائل اور ساس بہو کے جھگڑوں میں شامل کر کے ان کو ذہنی طور پر پریشان کریں۔ مائیں اس بات کی اہمیت سمجھیں کہ شادی کے بعد ان کی بیٹیوں کا اصل گھر ان کے شوہر کا گھر ہے نہ کہ میکہ جبکہ بطورِ ساس ان کو اس لڑکی پر توجہ دینی چاہئیے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کے گھر آگئی ہے۔_
_اس کے علاوہ بیٹیوں کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ زندگی کا مقصد اپنے سفر کو آگے بڑھانا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ دوسروں کے بجائے اپنے معاملات پر دھیان دیں ._
_*اپنی توجہ کا مرکز اپنے گھر اور بچوں کو بنائیں …!!!*_
*_?? زندگی کو بہتر انداز میں جئیں نہ کہ دوسروں کے مسائل میں کھو کر اپنے قیمتی لمحات کو ضائع کریں …!!!_*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں